رنج و غم سہنے کی عادت ہو گئی ہے
زندہ رہنے کے سلیقے دے گیا وہ
اختر شاہجہانپوری
اپنوں سے جنگ ہے تو بھلے ہار جاؤں میں
لیکن میں اپنے ساتھ سپاہی نہ لاؤں گا
اختر شاہجہانپوری
میں جھوٹ کو سچائی کے پیکر میں سجاتا
کیا کیجیے مجھ کو یہ ہنر ہی نہیں آیا
اختر شاہجہانپوری
لوگ یہ سوچ کے ہی پریشان ہیں
میں زمیں تھا تو کیوں آسماں ہو گیا
اختر شاہجہانپوری
لاج رکھنی پڑ گئی ہے دوستوں کی
ہم بھری محفل میں جھوٹے ہو گئے ہیں
اختر شاہجہانپوری
کوئی منظر نہیں برسات کے موسم میں بھی
اس کی زلفوں سے پھسلتی ہوئی دھوپوں جیسا
اختر شاہجہانپوری
جگنو تھا کہکشاں تھا ستارہ تھا یا گہر
آنسو کسی کی آنکھ سے جب تک گرا نہ تھا
اختر شاہجہانپوری
جام شراب اب تو مرے سامنے نہ رکھ
آنکھوں میں نور ہاتھ میں جنبش کہاں ہے اب
اختر شاہجہانپوری
دلوں میں کرب بڑھتا جا رہا ہے
مگر چہرے ابھی شاداب سے ہیں
اختر شاہجہانپوری