آوازوں کا بوجھ اٹھائے صدیوں سے
بنجاروں کی طرح گزارہ کرتا ہوں
ابرار اعظمی
چہروں کے میلے جسموں کے جنگل تھے ہر جگہ
ان میں کہیں بھی کوئی مگر آدمی نہ تھا
ابرار اعظمی
کمرے میں دھواں درد کی پہچان بنا تھا
کل رات کوئی پھر مرا مہمان بنا تھا
ابرار اعظمی
خوش نما دیوار و در کے خواب ہی دیکھا کئے
جسم صحرا ذہن ویراں آنکھ گیلی ہو گئی
ابرار اعظمی
میں نے کل توڑا اک آئینہ تو محسوس ہوا
اس میں پوشیدہ کوئی چیز تھی جوہر جیسی
ابرار اعظمی
مجھے بھی فرصت نظارۂ جمال نہ تھی
اور اس کو پاس کسی اور کے بھی جانا تھا
ابرار اعظمی
پرندے فضاؤں میں پھر کھو گئے
دھواں ہی دھواں آشیانوں میں تھا
ابرار اعظمی
شاید تمہاری یاد مرے پاس آ گئی
یا ہے مرے ہی دل کی صدا سوچنا پڑا
ابرار اعظمی
تمام رات وہ پہلو کو گرم کرتا رہا
کسی کی یاد کا نشہ شراب جیسا تھا
ابرار اعظمی