کمرے میں دھواں درد کی پہچان بنا تھا
کل رات کوئی پھر مرا مہمان بنا تھا
بستر میں چلی آئیں مچلتی ہوئی کرنیں
آغوش میں تکیہ تھا سو انجان بنا تھا
وہ میں تھا مرا سایہ تھا یا سائے کا سایہ
آئینہ مقابل تھا میں حیران بنا تھا
نظروں سے چراتا رہا جسموں کی حلاوت
سنتے ہیں کوئی صاحب ایمان بنا تھا
ندی میں چھپا چاند تھا ساحل پہ خموشی
ہر رنگ لہو رنگ کا زندان بنا تھا
حرفوں کا بنا تھا کہ معانی کا خزینہ
ہر شعر مرا بحث کا عنوان بنا تھا
غزل
کمرے میں دھواں درد کی پہچان بنا تھا
ابرار اعظمی