تنہا اداس شب کے سوا کوئی بھی نہ تھا
سناٹا آیا جھانک کے گھر میں چلا گیا
بے کیفیوں کی جھیل میں بے حس سے کچھ پرند
بیٹھے تھے تھوڑی دیر مگر اس سے کیا ہوا
چہروں کے میلے جسموں کے جنگل تھے ہر جگہ
ان میں کہیں بھی کوئی مگر آدمی نہ تھا
وہ اجنبی یہی تو وہ کہتا تھا چیخ کر
میرا ادھورا خواب کہیں مجھ سے کھو گیا
چھن چھن کے آ رہی ہے کدھر سے یہ روشنی
میری فصیل درد کی رفعت کو کیا ہوا
غزل
تنہا اداس شب کے سوا کوئی بھی نہ تھا
ابرار اعظمی