EN हिंदी
دھوپ چمکی رات کی تصویر پیلی ہو گئی | شیح شیری
dhup chamki raat ki taswir pili ho gai

غزل

دھوپ چمکی رات کی تصویر پیلی ہو گئی

ابرار اعظمی

;

دھوپ چمکی رات کی تصویر پیلی ہو گئی
دن گیا اور سرد تاریکی نکیلی ہو گئی

جانے کس کی جستجو میں اس قدر گھوما کئے
ہم جواں مردوں کی ہر پوشاک ڈھیلی ہو گئی

مے کدہ سے گھر کی جانب خود بہ خود کیوں آ گئے
سرد کمرے کی فضا کیا پھر نشیلی ہو گئی

ہم سرابوں کے سفر کے اس قدر عادی ہوئے
جل بھری ندیوں کی لذت بھی کسیلی ہو گئی

خوش نما دیوار و در کے خواب ہی دیکھا کئے
جسم صحرا ذہن ویراں آنکھ گیلی ہو گئی