دھوپ چمکی رات کی تصویر پیلی ہو گئی
دن گیا اور سرد تاریکی نکیلی ہو گئی
جانے کس کی جستجو میں اس قدر گھوما کئے
ہم جواں مردوں کی ہر پوشاک ڈھیلی ہو گئی
مے کدہ سے گھر کی جانب خود بہ خود کیوں آ گئے
سرد کمرے کی فضا کیا پھر نشیلی ہو گئی
ہم سرابوں کے سفر کے اس قدر عادی ہوئے
جل بھری ندیوں کی لذت بھی کسیلی ہو گئی
خوش نما دیوار و در کے خواب ہی دیکھا کئے
جسم صحرا ذہن ویراں آنکھ گیلی ہو گئی
غزل
دھوپ چمکی رات کی تصویر پیلی ہو گئی
ابرار اعظمی