EN हिंदी
قید تن سے روح ہے ناشاد کیا | شیح شیری
qaid-e-tan se ruh hai nashad kya

غزل

قید تن سے روح ہے ناشاد کیا

امداد امام اثرؔ

;

قید تن سے روح ہے ناشاد کیا
چند روزہ عمر کی میعاد کیا

میری ایذا سے عدو ہو شاد کیا
تجھ پہ تکیہ او ستم ایجاد کیا

ان کی خاطر جائیں بزم غیر میں
آرزوئے جنت شداد کیا

پا رہا ہے دل مصیبت کے مزے
آئے لب پر شکوۂ بیداد کیا

دل میں جو آئے اسے کہہ ڈالیے
آپ کی باتیں کریں گے یاد کیا

دوستو آئے ہیں وہ دشمن کے ساتھ
مجھ کو دیتے ہو مبارک باد کیا

جب نہیں کچھ اعتبار زندگی
اس جہاں کا شاد کیا ناشاد کیا

کچھ اگر تاثیر رکھتی ہے تو کھینچ
ورنہ اے دل حاصل فریاد کیا

جب برنگ گل ہے پابند مکاں
باندھتے ہیں سرو کو آزاد کیا

ہے ترا پامال ہر نخل چمن
تیرے آگے سرو کیا شمشاد کیا

یار کی تصویر دل پر کھینچ لی
کھینچتے ہم منت بہزاد کیا

غیر دل سے ایک دم جاتا نہیں
ہم تجھے آئیں ستم گر یاد کیا

مجھ سے پہلے سن چکے ہیں غیر کی
وہ مرے حق میں کریں ارشاد کیا

سر ٹپکتے ہیں اسیران قفس
ہے چمن کی اے صبا روداد کیا

عاشقی ہے سر پہ لینا کوہ غم
نازش سر بازیٔ فرہاد کیا

عرض اپنی ہے جو ہے عرض عدو
دیکھیے کرتے ہیں وہ ارشاد کیا

سرکشی تجھ سے کرے کیا تاب ہے
آدمی کی اے خدا بنیاد کیا

بے حقیقت جان کر دل کو اثرؔ
تو نے اے ناداں کیا برباد کیا