EN हिंदी
رسوائی شیاری | شیح شیری

رسوائی

40 شیر

عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا

till love does not cause him disgrace
in this world man has no place

جگر مراد آبادی




مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو
مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں

کیف بھوپالی




رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے
حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے

خلیل تنویر




میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

خاطر غزنوی




ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا
ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے

خورشید ربانی




اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

خواجہ میر دردؔ




ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن
اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو

خواجہ میر دردؔ