نہ آیا مزہ شب کی تنہائیوں میں
سحر ہو گئی چند انگڑائیوں میں
نہ رنگینیوں میں نہ رعنائیوں میں
نظر گھر گئی اپنی پرچھائیوں میں
مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو
مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں
غضب ہو گیا ان کی محفل سے آنا
گھرا جا رہا ہوں تماشائیوں میں
محبت ہے یا آج ترک محبت
ذرا مل تو جائیں وہ تنہائیوں میں
ادھر آؤ تم کو نظر لگ نہ جائے
چھپا لوں تمہیں دل کی گہرائیوں میں
ارے سننے والو یہ نغمے نہیں ہیں
مرے دل کی چیخیں ہیں شہنائیوں میں
وہ اے کیفؔ جس دن سے میرے ہوئے ہیں
تو سارا زمانہ ہے شیدائیوں میں
غزل
نہ آیا مزہ شب کی تنہائیوں میں
کیف بھوپالی