رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے
حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے
کل تک جہاں میں جن کو کوئی پوچھتا نہ تھا
اس شہر بے چراغ میں وہ معتبر ہوئے
بڑھنے لگی ہیں اور زمانوں کی دوریاں
یوں فاصلے تو آج بہت مختصر ہوئے
دل کے مکاں سے خوف کے سائے نہ چھٹ سکے
رستے تو دور دور تلک بے خطر ہوئے
اب کے سفر میں درد کے پہلو عجیب ہیں
جو لوگ ہم خیال نہ تھے ہم سفر ہوئے
بدلا جو رنگ وقت نے منظر بدل گئے
آہن مثال لوگ بھی زیر و زبر ہوئے
غزل
رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے
خلیل تنویر