ترے فراق میں جو آنکھ سے رواں ہوا ہے
وہ اشک خوں ہی مرے غم کا ترجماں ہوا ہے
ہے جانے کیا پس دیوار آئینہ جس پر
یقین کر کے بھی دل وقف صد گماں ہوا ہے
بریدہ شاخ شجر کا شکستہ پتوں کا
ترے سوا بھی کوئی موجۂ خزاں ہوا ہے
ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا
ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے
بچھڑ کے تجھ سے تھا خورشیدؔ کا ٹھکانہ کیا
خوشا نصیب شب غم کا آستاں ہوا ہے
غزل
ترے فراق میں جو آنکھ سے رواں ہوا ہے
خورشید ربانی