EN हिंदी
ترے فراق میں جو آنکھ سے رواں ہوا ہے | شیح شیری
tere firaq mein jo aankh se rawan hua hai

غزل

ترے فراق میں جو آنکھ سے رواں ہوا ہے

خورشید ربانی

;

ترے فراق میں جو آنکھ سے رواں ہوا ہے
وہ اشک خوں ہی مرے غم کا ترجماں ہوا ہے

ہے جانے کیا پس دیوار آئینہ جس پر
یقین کر کے بھی دل وقف صد گماں ہوا ہے

بریدہ شاخ شجر کا شکستہ پتوں کا
ترے سوا بھی کوئی موجۂ خزاں ہوا ہے

ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا
ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے

بچھڑ کے تجھ سے تھا خورشیدؔ کا ٹھکانہ کیا
خوشا نصیب شب غم کا آستاں ہوا ہے