EN हिंदी
رسوائی شیاری | شیح شیری

رسوائی

40 شیر

تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

الطاف حسین حالی




کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے

انجم خیالی




کس قدر بد نامیاں ہیں میرے ساتھ
کیا بتاؤں کس قدر تنہا ہوں میں

انور شعور




دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

آرزو لکھنوی




ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں

اطہر نفیس




چاہ کی چتون میں آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی

داغؔ دہلوی




جس جگہ بیٹھے مرا چرچا کیا
خود ہوئے رسوا مجھے رسوا کیا

داغؔ دہلوی