گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
گرمئ محفل فقط اک نعرۂ مستانہ ہے
اور وہ خوش ہیں کہ اس محفل سے دیوانے گئے
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر بن گئیں
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے
یوں تو وہ میری رگ جاں سے بھی تھے نزدیک تر
آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے
اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے
بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے
کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ کشتۂ شب تھے بھی ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے
غزل
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
خاطر غزنوی