EN हिंदी
موٹ شیاری | شیح شیری

موٹ

80 شیر

جو انہیں وفا کی سوجھی تو نہ زیست نے وفا کی
ابھی آ کے وہ نہ بیٹھے کہ ہم اٹھ گئے جہاں سے

عبد المجید سالک




یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم




بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

احمد مشتاق




کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا

احمد مشتاق




موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو

احمد مشتاق




کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

احمد ندیم قاسمی




نیند کو لوگ موت کہتے ہیں
خواب کا نام زندگی بھی ہے

احسن یوسف زئی