EN हिंदी
مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا | شیح شیری
mil hi aate hain use aisa bhi kya ho jaega

غزل

مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا

احمد مشتاق

;

مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا
بس یہی نہ درد کچھ دل کا سوا ہو جائے گا

وہ مرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں
دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہو جائے گا

گھر سے، کچھ خوابوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے ہم
کیا خبر تھی زندگی سے سامنا ہو جائے گا

رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی
کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا

کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا