EN हिंदी
محبت شیاری | شیح شیری

محبت

86 شیر

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

جگر مراد آبادی




اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

جگر مراد آبادی




یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جگر مراد آبادی




دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

جوشؔ ملیح آبادی




جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

کیفی اعظمی




دل تھام کے کروٹ پہ لئے جاؤں ہوں کروٹ
وہ آگ لگی ہے کہ بجھائے نہ بنے ہے

کلیم عاجز




ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی

کلیم عاجز