رات کے دشت میں پھیلا ہوا سناٹا ہوں
اپنے سائے سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں
میں کبھی اپنے لیے غیر نہیں تھا اتنا
آئینہ دیکھ کے کل رات بہت رویا ہوں
تم سے ملنے کی خوشی ہے نہ بچھڑنے کا ملال
خود فریبی کے اب اس موڑ پہ آ پہونچا ہوں
جب سے اک خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو
میں ہر اک خواب کی تعبیر سے گھبراتا ہوں
کوئی ملتا ہی نہیں آنکھ ملانے والا
میں ترے شہر میں سورج کی طرح تنہا ہوں
زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے آزرؔ
اور میں ہوں کہ ضرورت کی طرح زندہ ہوں
غزل
رات کے دشت میں پھیلا ہوا سناٹا ہوں
کفیل آزر امروہوی