EN हिंदी
رات کے دشت میں پھیلا ہوا سناٹا ہوں | شیح شیری
raat ke dasht mein phaila hua sannaTa hun

غزل

رات کے دشت میں پھیلا ہوا سناٹا ہوں

کفیل آزر امروہوی

;

رات کے دشت میں پھیلا ہوا سناٹا ہوں
اپنے سائے سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں

میں کبھی اپنے لیے غیر نہیں تھا اتنا
آئینہ دیکھ کے کل رات بہت رویا ہوں

تم سے ملنے کی خوشی ہے نہ بچھڑنے کا ملال
خود فریبی کے اب اس موڑ پہ آ پہونچا ہوں

جب سے اک خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو
میں ہر اک خواب کی تعبیر سے گھبراتا ہوں

کوئی ملتا ہی نہیں آنکھ ملانے والا
میں ترے شہر میں سورج کی طرح تنہا ہوں

زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے آزرؔ
اور میں ہوں کہ ضرورت کی طرح زندہ ہوں