EN हिंदी
کھوسشی شیاری | شیح شیری

کھوسشی

55 شیر

یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا
کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں

مدن موہن دانش




ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی
جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو

محشر عنایتی




خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا

محمد علی ساحل




میری عرض شوق بے معنی ہے ان کے واسطے
ان کی خاموشی بھی اک پیغام ہے میرے لیے

معین احسن جذبی




چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے

ناصر کاظمی




میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے

ناصر کاظمی




رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں

ناظر وحید