EN हिंदी
کھوسشی شیاری | شیح شیری

کھوسشی

55 شیر

جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری

جگر مراد آبادی




خموشی میں ہر بات بن جائے ہے
جو بولے ہے دیوانہ کہلائے ہے

کلیم عاجز




ہم نہ مانیں گے خموشی ہے تمنا کا مزاج
ہاں بھری بزم میں وہ بول نہ پائی ہوگی

کالی داس گپتا رضا




شور جتنا ہے کائنات میں شور
میرے اندر کی خامشی سے ہوا

کاشف حسین غائر




نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیز تھی اک مری خامشی

خلیلؔ الرحمن اعظمی




رات میری آنکھوں میں کچھ عجیب چہرے تھے
اور کچھ صدائیں تھیں خامشی کے پیکر میں

خوشبیر سنگھ شادؔ




خموشی دل کو ہے فرقت میں دن رات
گھڑی رہتی ہے یہ آٹھوں پہر بند

لالہ مادھو رام جوہر