راہ حق میں تجھے ہستی کو مٹانا ہوگا
دیکھنا پھر تری ٹھوکر میں زمانہ ہوگا
رونے والے تجھے ہنستے ہوئے پھولوں کی طرح
ساری دنیا کو ہنر اپنا دکھانا ہوگا
بے وفا ہو کے بھی تو اتنی مقدس کیوں ہے
زندگی آج تجھے راز بتانا ہوگا
وقت رخصت یہی کہتی تھیں برستی آنکھیں
پاس میرے تجھے پھر لوٹ کے آنا ہوگا
ایک چنگاری تعصب کی نظر آئی ہے
دیکھنا یہ ہے کہاں اس کا نشانہ ہوگا
اپنے ماضی کے ہر اک غم کو بھلا دے ورنہ
چوٹ پھر ابھرے گی پھر درد پرانا ہوگا
خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا
زندگی میں تجھے چلنا ہے سنبھل کر ساحلؔ
راستے میں ترے کم ظرف زمانہ ہوگا
غزل
راہ حق میں تجھے ہستی کو مٹانا ہوگا
محمد علی ساحل