EN हिंदी
کھوسشی شیاری | شیح شیری

کھوسشی

55 شیر

چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے
لو خموشی بھی شکایت ہو گئی

اختر انصاری اکبرآبادی




اسے بے چین کر جاؤں گا میں بھی
خموشی سے گزر جاؤں گا میں بھی

امیر قزلباش




ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا

انجم سلیمی




کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر
ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں

انور سدید




محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے

عرش ملسیانی




خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی
کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا

آرزو لکھنوی




عجیب شور مچانے لگے ہیں سناٹے
یہ کس طرح کی خموشی ہر اک صدا میں ہے

عاصمؔ واسطی