آہ بھی اک کوشش ناکام ہے میرے لیے
ایسی صہبائے کہن اور خام ہے میرے لیے
زندگی اک شورش آلام ہے میرے لیے
جو نفس ہے گردش ایام ہے میرے لیے
شاعری ہی وجہ ننگ و نام ہے میرے لیے
اور جو کچھ ہے وہ سب الزام ہے میرے لیے
میری عرض شوق بے معنی ہے ان کے واسطے
ان کی خاموشی بھی اک پیغام ہے میرے لیے
یہ مری آشفتہ حالی یہ مری آوارگی
جیسے ساری گردش ایام ہے میرے لیے
کس قدر معصوم کیسی گرم کتنی دل نواز
وہ نگاہ ناز جو بد نام ہے میرے لیے
آج کیا ہونے کو ہے اے گردش ہفت آسماں
ہر ستارہ لرزہ بر اندام ہے میرے لیے
غزل
آہ بھی اک کوشش ناکام ہے میرے لیے
معین احسن جذبی