دل میں اور تو کیا رکھا ہے
تیرا درد چھپا رکھا ہے
اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دیپ جلا رکھا ہے
دھوپ سے چہروں نے دنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے
اس نگری کے کچھ لوگوں نے
دکھ کا نام دوا رکھا ہے
وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو
یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے
بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
غزل
دل میں اور تو کیا رکھا ہے
ناصر کاظمی