EN हिंदी
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے | شیح شیری
main hun raat ka ek baja hai

غزل

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے

ناصر کاظمی

;

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے

آج تو یوں خاموش ہے دنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے

کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے

آج تو شہر کی روش روش پر
پتوں کا میلہ سا لگا ہے

آؤ گھاس پہ سبھا جمائیں
مے خانہ تو بند پڑا ہے

پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم ہرا ہے

تو نے جتنا پیار کیا تھا
دکھ بھی مجھے اتنا ہی دیا ہے

یہ بھی ہے ایک طرح کی محبت
میں تجھ سے تو مجھ سے جدا ہے

یہ تری منزل وہ مرا رستہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا ہے

میں نے تو اک بات کہی تھی
کیا تو سچ مچ روٹھ گیا ہے

ایسا گاہک کون ہے جس نے
سکھ دے کر دکھ مول لیا ہے

تیرا رستہ تکتے تکتے
کھیت گگن کا سوکھ چلا ہے

کھڑکی کھول کے دیکھ تو باہر
دیر سے کوئی شخص کھڑا ہے

ساری بستی سو گئی ناصرؔ
تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے