نہ غیر ہی مجھے سمجھو نہ دوست ہی سمجھو
مرے لیے یہ بہت ہے کہ آدمی سمجھو
میں رہ رہا ہوں زمانے میں سائے کی صورت
جہاں بھی جاؤ مجھے اپنے ساتھ ہی سمجھو
ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی
جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو
گزر تو سکتی ہیں راتیں جلا جلا کے چراغ
مگر یہ کیا کہ اندھیرے کو روشنی سمجھو
وہ شعر کہنے لگے ہو تم اب تو اے محشرؔ
نہ کوئی اور ہی سمجھے نہ آپ ہی سمجھو
غزل
نہ غیر ہی مجھے سمجھو نہ دوست ہی سمجھو
محشر عنایتی