EN हिंदी
محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے | شیح شیری
mohabbat soz bhi hai saz bhi hai

غزل

محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے

عرش ملسیانی

;

محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے

نشیمن کے لیے بیتاب طائر
وہاں پابندیٔ پرواز بھی ہے

خموشی پر بھروسا کرنے والے
خموشی درد کی غماز بھی ہے

ہے معراج خرد بھی عرش اعظم
جنوں کا فرش پا انداز بھی ہے

دل بیگانہ خود دنیا میں تیرا
کوئی ہم دم کوئی ہم راز بھی ہے

کبھی محتاج لے کا بھی نہیں یہ
کبھی نغمہ رہین ساز بھی ہے

کبھی تو دل ہے محو بے نیازی
کبھی طوف حریم ناز بھی ہے

ترانہ ہائے ساز زندگی میں
اک آواز شکست ساز بھی ہے