EN हिंदी
گزر چکا ہے جو لمحہ وہ ارتقا میں ہے | شیح شیری
guzar chuka hai jo lamha wo irtiqa mein hai

غزل

گزر چکا ہے جو لمحہ وہ ارتقا میں ہے

عاصمؔ واسطی

;

گزر چکا ہے جو لمحہ وہ ارتقا میں ہے
مری بقا کا سبب تو مری فنا میں ہے

نہیں ہے شہر میں چہرہ کوئی تر و تازہ
عجیب طرح کی آلودگی ہوا میں ہے

ہر ایک جسم کسی زاویے سے عریاں ہے
ہے ایک چاک جو موجود ہر قبا میں ہے

غلط روی کو تری میں غلط سمجھتا ہوں
یہ بے وفائی بھی شامل مری وفا میں ہے

مرے گناہ میں پہلو ہے ایک نیکی کا
جزا کا ایک حوالہ مری سزا میں ہے

عجیب شور مچانے لگے ہیں سناٹے
یہ کس طرح کی خموشی ہر اک صدا میں ہے

سبب ہے ایک ہی میری ہر اک تمنا کا
بس ایک نام ہے عاصمؔ کہ ہر دعا میں ہے