یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے
قتیل شفائی
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
راحتؔ اندوری
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
رئیس فروغ
اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے
موسلا دھار برس میری جان
راجیندر منچندا بانی
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
رسا چغتائی
شام ڈھلے یہ سوچ کے بیٹھے ہم اپنی تصویر کے پاس
ساری غزلیں بیٹھی ہوں گی اپنے اپنے میر کے پاس
ساغرؔ اعظمی
تم کیا جانو اپنے آپ سے کتنا میں شرمندہ ہوں
چھوٹ گیا ہے ساتھ تمہارا اور ابھی تک زندہ ہوں
ساغرؔ اعظمی