EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

قتیل شفائی




اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

راحتؔ اندوری




عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے

رئیس فروغ




اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے
موسلا دھار برس میری جان

راجیندر منچندا بانی




عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا

رسا چغتائی




شام ڈھلے یہ سوچ کے بیٹھے ہم اپنی تصویر کے پاس
ساری غزلیں بیٹھی ہوں گی اپنے اپنے میر کے پاس

ساغرؔ اعظمی




تم کیا جانو اپنے آپ سے کتنا میں شرمندہ ہوں
چھوٹ گیا ہے ساتھ تمہارا اور ابھی تک زندہ ہوں

ساغرؔ اعظمی