EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں

قتیل شفائی




میں جب قتیلؔ اپنا سب کچھ لٹا چکا ہوں
اب میرا پیار مجھ سے دانائی چاہتا ہے

قتیل شفائی




مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو

قتیل شفائی




نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا
نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا

قتیل شفائی




رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے

قتیل شفائی




ثبوت عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں

قتیل شفائی




ترک وفا کے بعد یہ اس کی ادا قتیلؔ
مجھ کو ستائے کوئی تو اس کو برا لگے

قتیل شفائی