اپنی مٹی کو سرافراز نہیں کر سکتے
یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے
عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو سبو تاژ نہیں کر سکتے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
شہر میں ایک ذرا سے کسی گھر کی خاطر
اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کر سکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
غزل
اپنی مٹی کو سرافراز نہیں کر سکتے
رئیس فروغ