کیا کشش حسن بے پناہ میں ہے
جو قدم ہے اسی کی راہ میں ہے
مے کدہ میں نہ خانقاہ میں ہے
جو تجلی دل تباہ میں ہے
ہائے وہ راز غم کہ جو اب تک
تیرے دل میں مری نگاہ میں ہے
عشق میں کیسی منزل مقصود
وہ بھی اک گرد ہے جو راہ میں ہے
میں جہاں ہوں ترے خیال میں ہوں
تو جہاں ہے مری نگاہ میں ہے
حسن کو بھی کہاں نصیب جگرؔ
وہ جو اک شے مری نگاہ میں ہے
غزل
کیا کشش حسن بے پناہ میں ہے
جگر مراد آبادی