جو لوگ دشمن جاں تھے وہی سہارے تھے
منافعے تھے محبت میں نے خسارے تھے
حضور شاہ بس اتنا ہی عرض کرنا ہے
جو اختیار تمہارے تھے حق ہمارے تھے
یہ اور بات بہاریں گریز پا نکلیں
گلوں کے ہم نے تو صدقے بہت اتارے تھے
خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں
وہ دن جو ہم نے ترے ہجر میں گزارے تھے
اب اذن ہو تو تری زلف میں پرو دیں پھول
کہ آسماں کے ستارے تو استعارے تھے
قریب آئے تو ہر گل تھا خانۂ زنبور
ندیمؔ دور کے منظر تو پیارے پیارے تھے
غزل
جو لوگ دشمن جاں تھے وہی سہارے تھے
احمد ندیم قاسمی