جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے
کیا خبر کون کہاں کس کا نشانہ بن جائے
عشق خود اپنے رقیبوں کو بہم کرتا ہے
ہم جسے پیار کریں جان زمانہ بن جائے
اتنی شدت سے نہ مل تو کہ جدائی چاہیں
یہی قربت تری دوری کا بہانہ بن جائے
جو غزل آج ترے ہجر میں لکھی ہے وہ کل
کیا خبر اہل محبت کا ترانہ بن جائے
کرتا رہتا ہوں فراہم میں زر زخم کہ یوں
شاید آئندہ زمانوں کا خزانہ بن جائے
اس سے بڑھ کر کوئی انعام ہنر کیا ہے فرازؔ
اپنے ہی عہد میں اک شخص فسانہ بن جائے
غزل
جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے
احمد فراز