EN हिंदी
غام شیاری | شیح شیری

غام

108 شیر

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

بشیر بدر




غم میں ڈوبے ہی رہے دم نہ ہمارا نکلا
بحر ہستی کا بہت دور کنارا نکلا

بیخود دہلوی




ہائے کتنا لطیف ہے وہ غم
جس نے بخشا ہے زندگی کا شعور

چندر پرکاش جوہر بجنوری




اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا

چراغ حسن حسرت




عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا
پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے

دتا تریہ کیفی




تم سے اب کیا کہیں وہ چیز ہے داغ غم عشق
کہ چھپائے نہ چھپے اور دکھائے نہ بنے

دتا تریہ کیفی




اگر موجیں ڈبو دیتیں تو کچھ تسکین ہو جاتی
کناروں نے ڈبویا ہے مجھے اس بات کا غم ہے

دواکر راہی