EN हिंदी
لطف ہو حشر میں کچھ بات بنائے نہ بنے | شیح شیری
lutf ho hashr mein kuchh baat banae na bane

غزل

لطف ہو حشر میں کچھ بات بنائے نہ بنے

دتا تریہ کیفی

;

لطف ہو حشر میں کچھ بات بنائے نہ بنے
آنکھ بھی شوخ ستمگر سے چرائے نہ بنے

مجھ کو اٹھوا تو دیا اس نے بھری محفل سے
کون تھا یہ کوئی پوچھے تو بتائے نہ بنے

بات ساری یہ ہے وہ ضد پہ اڑے بیٹھے ہیں
یاد کی بھول ہو تو لاکھ جتائے نہ بنے

تم سے اب کیا کہیں وہ چیز ہے داغ غم عشق
کہ چھپائے نہ چھپے اور دکھائے نہ بنے

سیدھی باتوں پہ ہے مطلوب سند اور ثبوت
ہیں وہ کج بحث زباں ان سے ملائے نہ بنے

فتح کا راز ہے ثابت قدمی اور ہمت
کام بھی ہے کوئی ایسا کہ بنائے نہ بنے

بات وہ کہہ گئے آئے بھی تو کس طرح یقیں
اور سحر اس میں کچھ ایسا ہے بھلائے نہ بنے

بے کسی کی ہے مصیبت میں شکایت بے سود
کب پڑا وقت کہ اپنے بھی پرائے نہ بنے

غم جو پیارے سے ملے کیوں نہ ہو وہ بھی پیارا
بھولنا بھی اسے چاہیں تو بھلائے نہ بنے

ہے نظر میں وہ سماں نقش ہے جس کا دل پر
درد وہ نام ہے لب تک جسے لائے نہ بنے

بے خودی کا ہے جہاں بے اثر ناز و نیاز
سرکشی بھی نہ چلے سر بھی جھکائے نہ بنے

آہ سرد اور بھی بھڑکاتی ہے شعلہ دل میں
یہ دیا وہ ہے جو پھونکوں سے بجھائے نہ بنے

سرد آزاد ہے دل رشک و نمائش ہے عبث
خار کھائے نہ بنے گل بھی کھلائے نہ بنے

عین یک رنگی ہے نیرنگ تماشا ہر چند
یہ وہ عریانی کا پردہ ہے اٹھائے نہ بنے

بے خودی میں بھی تو کیفیؔ کی یہ خودداری ہے
حال دل پوچھ بھی لیں وہ تو سنائے نہ بنے