زحال مسکیں مکن تغافل دوراے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
امیر خسرو
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
امیر مینائی
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے
امیر مینائی
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
امیر مینائی
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
امیر اللہ تسلیم
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
Am grateful you came finally, though you were delayed
hope had not forsaken me, though must say was afraid
عندلیب شادانی