اندھے بدن میں یہ سحر آثار کون ہے
تو بھی نہیں تو مجھ میں شرربار کون ہے
وہ کون ہے جو جاگتا ہے میری نیند میں
اسرار میں ہوں صاحب اسرار کون ہے
کس نے وفا کے نام پہ دھوکا دیا مجھے
کس سے کہوں کہ میرا گنہ گار کون ہے
سب نے گلے لگا کے گلے سے جدا کیا
پہچان ہی نہیں کہ ریاکار کون ہے
پھر یوں ہوا کہ مجھ پہ ہی دیوار گر پڑی
لیکن نہ کھل سکا پس دیوار کون ہے
میری صدا میں کس کی صدائیں ہیں موجزن
ندی ہوں میں اگر تو مرے پار کون ہے
محبوس سب ہیں مصلحتوں کے حصار میں
لیکن خود اپنی دھن کا گرفتار کون ہے
ہر آنکھ میں نجیبؔ ہیں سپنے بسے ہوئے
اس جاگتے دیار میں بے دار کون ہے
غزل
اندھے بدن میں یہ سحر آثار کون ہے
نجیب احمد