ہیں سحر مصور میں قیامت نہیں کرتے
رنگوں سے نکلنے کی جسارت نہیں کرتے
افسوس کے جنگل میں بھٹکتے ہیں خیالات
رم بھول گئے خوف سے وحشت نہیں کرتے
تم اور کسی کے ہو تو ہم اور کسی کے
اور دونوں ہی قسمت کی شکایت نہیں کرتے
مدت ہوئی اک شخص نے دل توڑ دیا تھا
اس واسطے اپنوں سے محبت نہیں کرتے
یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے
غزل
ہیں سحر مصور میں قیامت نہیں کرتے
ساقی فاروقی