ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
آئیے حال دل مجروح سنیے دیکھیے
کیا کہا زخموں نے کیوں ٹانکے صدا دینے لگے
کس نظر سے آپ نے دیکھا دل مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
سننے والے رو دئیے سن کر مریض غم کا حال
دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے
جز زمین کوئے جاناں کچھ نہیں پیش نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے
آئنہ ہو جائے میرا عشق ان کے حسن کا
کیا مزہ ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے
سینۂ سوزاں میں ثاقبؔ گھٹ رہا ہے وہ دھواں
اف کروں تو آگ دنیا کی ہوا دینے لگے
غزل
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
ثاقب لکھنوی