راز کہاں تک راز رہے گا منظر عام پہ آئے گا
جی کا داغ اجاگر ہو کر سورج کو شرمائے گا
شہروں کو ویران کرے گا اپنی آنچ کی تیزی سے
ویرانوں میں مست البیلے وحشی پھول کھلائے گا
ہاں یہی شخص گداز اور نازک ہونٹوں پر مسکان لیے
اے دل اپنے ہاتھ لگاتے پتھر کا بن جائے گا
دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی
وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا
تیرا نور ظہور سلامت اک دن تجھ پر ماہ تمام
چاند نگر کا رہنے والا چاند نگر لکھ جائے گا
غزل
راز کہاں تک راز رہے گا منظر عام پہ آئے گا
ابن انشا