EN हिंदी
گزر گئی جو چمن پر وہ کوئی کیا جانے | شیح شیری
guzar gai jo chaman par wo koi kya jaane

غزل

گزر گئی جو چمن پر وہ کوئی کیا جانے

اقبال صفی پوری

;

گزر گئی جو چمن پر وہ کوئی کیا جانے
جھڑے ہوئے ہیں بہار و خزاں کے افسانے

جہاں پہ چاک گریباں بھی چاک دل بن جائے
گزر رہے ہیں اب ان منزلوں سے دیوانے

مرے لبوں کا تبسم تو سب نے دیکھ لیا
جو دل پہ بیت رہی ہے وہ کوئی کیا جانے

ترے حضور جنہیں کہہ سکی نہ گویائی
مرے سکوت نے دہرا دئے وہ افسانے

نگاہ عشق میں دیر و حرم کی قید نہیں
کہیں بھی شمع جلے اڑ چلیں گے پروانے

تمام وسعت کونین کو ڈبو دیں گے
چھلک گئے جو کہیں اس نظر کے پیمانے

نہ اشتیاق نظارہ نہ اعتبار جمال
ٹھہر گئی ہے کہاں زندگی خدا جانے

نہ شمع بزم پہ کچھ آنچ آئے گی اقبالؔ
خود اپنی آگ میں جلتے رہیں گے پروانے