گزر گئی جو چمن پر وہ کوئی کیا جانے
جھڑے ہوئے ہیں بہار و خزاں کے افسانے
جہاں پہ چاک گریباں بھی چاک دل بن جائے
گزر رہے ہیں اب ان منزلوں سے دیوانے
مرے لبوں کا تبسم تو سب نے دیکھ لیا
جو دل پہ بیت رہی ہے وہ کوئی کیا جانے
ترے حضور جنہیں کہہ سکی نہ گویائی
مرے سکوت نے دہرا دئے وہ افسانے
نگاہ عشق میں دیر و حرم کی قید نہیں
کہیں بھی شمع جلے اڑ چلیں گے پروانے
تمام وسعت کونین کو ڈبو دیں گے
چھلک گئے جو کہیں اس نظر کے پیمانے
نہ اشتیاق نظارہ نہ اعتبار جمال
ٹھہر گئی ہے کہاں زندگی خدا جانے
نہ شمع بزم پہ کچھ آنچ آئے گی اقبالؔ
خود اپنی آگ میں جلتے رہیں گے پروانے
غزل
گزر گئی جو چمن پر وہ کوئی کیا جانے
اقبال صفی پوری