کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں
بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں
اب آ گئے ہیں تو پیاسے نہ جائیں گے ساقی
کچھ آج سوچ کے ہم میکدے میں آئے ہیں
کوئی ہواؤں سے کہہ دو ادھر کا رخ نہ کرے
چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں
جہاں کہیں بھی صدا دی یہی جواب ملا
یہ کون لوگ ہیں پوچھو کہاں سے آئے ہیں
چمن میں دیکھیے اب کے ہوا کدھر کی چلے
خزاں نصیبوں نے پھر آشیاں بنائے ہیں
سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ
ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں
انہیں پرائے چراغوں سے کیا غرض اقبالؔ
جو اپنے گھر کے دیئے خود بجھا کے آئے ہیں
غزل
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
اقبال عظیم