EN हिंदी
آئینے شیاری | شیح شیری

آئینے

36 شیر

خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے

ملک زادہ منظور احمد




میں تو منیرؔ آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں

منیر نیازی




یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

ناصر کاظمی




آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے مرے مرنے والے

on seeing her own reflection she is moved to say
ere their time, my paramours shall perish this day

رشید رامپوری




دیکھئے گا سنبھل کر آئینہ
سامنا آج ہے مقابل کا

ریاضؔ خیرآبادی




ہمیں معشوق کو اپنا بنانا تک نہیں آتا
بنانے والے آئینہ بنا لیتے ہیں پتھر سے

صفی اورنگ آبادی




بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

ساغر صدیقی