ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں
جیسے رسم ادا کرتے ہوں شہروں کی آبادی میں
صبح کو گھر سے دور نکل کر شام کو واپس آنے میں
نیلے رنگ میں ڈوبی آنکھیں کھلی پڑی تھیں سبزے پر
عکس پڑا تھا آسمان کا شاید اس پیمانے میں
دبی ہوئی ہے زیر زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے تہہ خانے میں
دل کچھ اور بھی سرد ہوا ہے شام شہر کی رونق سے
کتنی ضیا بے سود گئی شیشے کے لفظ جلانے میں
میں تو منیرؔ آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں
غزل
ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
منیر نیازی