EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہی قاتل وہی منصف بنا ہے
اسی سے فیصلہ ٹھہرا ہوا ہے

عبدالصمد تپشؔ




وقت کے دامن میں کوئی
اپنی ایک کہانی رکھ

عبدالصمد تپشؔ




وہ بڑا تھا پھر بھی وہ اس قدر بے فیض تھا
اس گھنیرے پیڑ میں جیسے کوئی سایہ نہ تھا

عبدالصمد تپشؔ




یہ میں ہوں خود کہ کوئی اور ہے تعاقب میں
یہ ایک سایہ پس رہ گزار کس کا ہے

عبدالصمد تپشؔ




ہمیں جہان کے پیچھے پڑے رہیں کب تک
ہمارے پیچھے کبھی یہ جہان بھی پڑتا

ابھیشیک شکلا




کبھی کبھی تو یہ وحشت بھی ہم پہ گزری ہے
کہ دل کے ساتھ ہی دیکھا ہے ڈوبنا شب کا

ابھیشیک شکلا




میں چوٹ کر تو رہا ہوں ہوا کے ماتھے پر
مزا تو جب تھا کہ کوئی نشان بھی پڑتا

ابھیشیک شکلا