EN हिंदी
ابھی تو آپ ہی حائل ہے راستا شب کا | شیح شیری
abhi to aap hi hail hai rasta shab ka

غزل

ابھی تو آپ ہی حائل ہے راستا شب کا

ابھیشیک شکلا

;

ابھی تو آپ ہی حائل ہے راستا شب کا
قریب آئے تو دیکھیں گے حوصلہ شب کا

چلی تو آئی تھی کچھ دور ساتھ ساتھ مرے
پھر اس کے بعد خدا جانے کیا ہوا شب کا

مرے خیال کے وحشت کدے میں آتے ہی
جنوں کی نوک سے پھوٹا ہے آبلہ شب کا

سحر کی پہلی کرن نے اسے بکھیر دیا
مجھے سمیٹنے آیا تھا جب خدا شب کا

زمیں پہ آ کے ستاروں نے یہ کہا مجھ سے
ترے قریب سے گزرا ہے قافلہ شب کا

سحر کا لمس مری زندگی بڑھا دیتا
مگر گراں تھا بہت مجھ پہ کاٹنا شب کا

کبھی کبھی تو یہ وحشت بھی ہم پہ گزری ہے
کہ دل کے ساتھ ہی دیکھا ہے ڈوبنا شب کا

چٹخ اٹھی ہے رگ جاں تو یہ خیال آیا
کسی کی یاد سے جڑتا ہے سلسلہ شب کا