وہ ایک دن جو تجھے سوچنے میں گزرا تھا
تمام عمر اسی دن کی ترجمانی ہے
ابھیشیک شکلا
یہ امتیاز ضروری ہے اب عبادت میں
وہی دعا جو نظر کر رہی ہے لب بھی کریں
ابھیشیک شکلا
یہ جو دنیا ہے اسے اتنی اجازت کب ہے
ہم پہ اپنی ہی کسی بات کا غصہ اترا
ابھیشیک شکلا
یہ جو ہم تخلیق جہان نو میں لگے ہیں پاگل ہیں
دور سے ہم کو دیکھنے والے ہاتھ بٹا ہم لوگوں کا
ابھیشیک شکلا
خموش رہنے کی عادت بھی مار دیتی ہے
تمہیں یہ زہر تو اندر سے چاٹ جائے گا
عابد خورشید
ابھی سے اس میں شباہت مری جھلکنے لگی
ابھی تو دشت میں دو چار دن گزارے ہیں
عابد ملک
بڑے سکون سے افسردگی میں رہتا ہوں
میں اپنے سامنے والی گلی میں رہتا ہوں
عابد ملک