میں سوچتا ہوں بہت زندگی کے بارے میں
یہ زندگی بھی مجھے سوچ کر نہ رہ جائے
ابھیشیک شکلا
مقام وصل تو ارض و سما کے بیچ میں ہے
میں اس زمین سے نکلوں تو آسماں سے نکل
ابھیشیک شکلا
سفر کے بعد بھی ذوق سفر نہ رہ جائے
خیال و خواب میں اب کے بھی گھر نہ رہ جائے
ابھیشیک شکلا
شب بھر اک آواز بنائی صبح ہوئی تو چیخ پڑے
روز کا اک معمول ہے اب تو خواب زدہ ہم لوگوں کا
ابھیشیک شکلا
تیری آنکھوں کے لیے اتنی سزا کافی ہے
آج کی رات مجھے خواب میں روتا ہوا دیکھ
ابھیشیک شکلا
اس سے کہنا کی دھواں دیکھنے لائق ہوگا
آگ پہنے ہوئے میں جاؤں گا پانی کی طرف
ابھیشیک شکلا
وہاں پہلے ہی آوازیں بہت تھیں
سو میں نے چپ کرایا خامشی کو
ابھیشیک شکلا