ابھی تک حوصلہ ٹھہرا ہوا ہے
نفس کا سلسلہ ٹھہرا ہوا ہے
رگوں پر آج بھی ہے لرزہ طاری
نگہ میں حادثہ ٹھہرا ہوا ہے
فقط قابیل نے بنیاد ڈالی
ابھی تک سلسلہ ٹھہرا ہوا ہے
بس اک تار نفس کا ٹوٹنا ہے
یہی اک حادثہ ٹھہرا ہوا ہے
نظر کی چوک تھی بس ایک لمحہ
صدی کا قافلہ ٹھہرا ہوا ہے
جہاں تک پاؤں میرے جا سکے ہیں
وہیں تک راستہ ٹھہرا ہوا ہے
وہ ہم سے روٹھ کر بھی دور کب ہیں
دلوں کا رابطہ ٹھہرا ہوا ہے
وہی قاتل وہی منصف بنا ہے
اسی سے فیصلہ ٹھہرا ہوا ہے
غزل
ابھی تک حوصلہ ٹھہرا ہوا ہے
عبدالصمد تپشؔ