آنکھ تھی سوجی ہوئی اور رات بھر سویا نہ تھا
اس طرح وہ ٹوٹ کر شاید کبھی رویا نہ تھا
ان کے شوق دید میں تھا اس قدر کھویا ہوا
میں بھری محفل میں تھا ایسا کہ میں گویا نہ تھا
امتحاں ذوق سفر کا تھا تو سورج سر پہ تھا
دھوپ تھی دیوار تھی لیکن کہیں سایہ نہ تھا
وہ بڑا تھا پھر بھی وہ اس قدر بے فیض تھا
اس گھنیرے پیڑ میں جیسے کوئی سایہ نہ تھا
شاہراہ پر خون میں اک لاش تھی لتھڑی ہوئی
آئے دن کا حادثہ تھا اس لئے چرچا نہ تھا
ہر نگہ پیاسی تھی لیکن وقت کی تحویل میں
اک سراب آسا زمیں تھی دور تک دریا نہ تھا
غزل
آنکھ تھی سوجی ہوئی اور رات بھر سویا نہ تھا
عبدالصمد تپشؔ