خلا کے جیسا کوئی درمیان بھی پڑتا
پھر اس سفر میں کہیں آسمان بھی پڑتا
میں چوٹ کر تو رہا ہوں ہوا کے ماتھے پر
مزا تو جب تھا کہ کوئی نشان بھی پڑتا
عجیب خواہشیں اٹھتی ہیں اس خرابے میں
گزر رہے ہیں تو اپنا مکان بھی پڑتا
ہمیں جہان کے پیچھے پڑے رہیں کب تک
ہمارے پیچھے کبھی یہ جہان بھی پڑتا
یہ اک کمی کہ جو اب زندگی سی لگتی ہے
ہماری دھوپ میں وہ سائبان بھی پڑتا
ہر ایک روز اسی زندگی کی تیاری
سو چاہتے ہیں کبھی امتحان بھی پڑتا
غزل
خلا کے جیسا کوئی درمیان بھی پڑتا
ابھیشیک شکلا